Mchoudhary

Add To collaction

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری

قسط 25

********
وہ دو بجے کے قریب zm کے بنگلے میں وہ واپس آئی تھی۔۔۔ چہرے پر اُداسی کے تاثرات سجھائے وہ اپنے روم میں آئی..... اُداسی چہرے پر ایسے لائی ہوئی تھی کہ جیسے برسوں سے یہ ہی بہت اُداس ہو۔۔ وہ شاپنگ بیگ کو بیڈ پر پھینک کر شاور لینے چلی گئی۔۔ ' تھوڑی دیر بعد وہ باتھرُوم سے شاور لے کر نکلی۔۔۔ سفید اور گلابی رنگ کی سلوار سوٹ زیب تن کیے بالوں کو یوں ہی کھلا چھوڑے گلے میں دوپٹہ ڈال کر وہ اپنے روم سے باہر نکلی۔۔۔ بی امّاں بی امّاں وہ چلّاتی ہوئی کچن میں آ گئی وہاں ساکیرا کافی تیار کے رہی تھی شائد۔۔ ۔" ساکيرا کس کے لیے بنا رہی ہو کافی ۔۔؟ وہ سیلف پر بیٹھتی ہوئی پاس رکھی باسکیٹ میں۔ سےایک ایپل اٹھاتی ہوئی بولی۔۔ " وہ عالیہ بی بی " صاحب کے لیے ... " اوہ ہ .. " تمہارے صاحب ابھی تک نہیں گئے...؟ وہ درمیان میں اُسکی بات کاٹتے ہوئے اُسنے پوچھا... " کیا مطلب بی بی جی...؟؟ ساکیرا نے پوچھا " وہ آئی مین کہ اس وقت تک تو آپکے صاحب چلے جاتے ہیں نہ !!! وہ سٹپٹائی تھی۔۔ "اچھا !! وہ ایک بار پھر کافی کو فینٹنے میں لگ گئی " نہیں بی بی جی " آج وہ کہیں نہیں جا رہے ہیں بلکہ آج وہ پورا دن گھر پر رہنے والے ہے .. سکیرا نے بتایا وہ چونکی تھی " کیوں..؟ سوال کیا گیا .." مجھے نہیں پتہ " کیا پتہ مائشا بی بی جی کی وجہ سے نہیں جا رہے ہو .. ساكيرا اندازہ لگا کر جواب دیا تھا۔۔۔ "کون مائشا؟ اس نے حیرت سے پوچھا "صبح تک تو یہاں کوئی نہیں تھا ...؟ وہ اندازہ لگا رہی تھی ۔۔۔ بی بی جی وہ اصل میں صاحب جی انکو رات میں لے کر آئے تھے قریب تین بجے ۔۔ "وہ صبح سب کے درمیان نہیں آئی تھی " تو صاحب جی نے اُنکے اور اپنے لیے وہیں اُنکے روم میں کافی منگا لی ۔۔۔ اب شاکیرا کافی کو مگ میں ڈال رہی تھی۔۔۔۔ ہننن .. " آپ لیگی کافی سكيرا نے پوچھا " نہیں تُم جاؤ ۔۔ اُسنے منا کرتے ہوئے اسکو جانے کا کہا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے ایپل کو وہیں سیلف پر رکھتی وہ  اپنے روم میں چلی گئی تھی۔۔۔۔۔
*******************
وہ سو کر اٹھا تھا رات دیر سے سویا تھا تو وہ اب دیر سے ہی اٹھا تھا۔۔اُسنے آج  کہیں نہیں جانا تھا اس لیے بے فکر ہو کر سکون کی نیند لی۔۔۔ آج اتنے سالوں بعد جو سکون اسکو میسر ہوا تھا یہ اُسکے لیے حیرانی کا باعث بن گیا۔۔ بنتا بھی کیوں نہ جو شخص اتنے سالوں بعد سکون محسوس کر رہا ہو اُسکے لیے تو یہ حیرانی کی ہی بات تھی۔۔ اُسنے آنکھیں مسلتے ہوئے گھڑی کے جانب دیکھا جو دوپہر کے دو بجنے کا پتہ دے رہی تھی۔۔ اُسکی پٹ سے آنکھیں کھلی " میں اتنی دیر تک سوتا رہا کیا؟ وہ بلکل بچوں کی طرح بولا۔۔۔ اور پھر جلدی سے بیڈ سے نیچے اُتر کر باتھرُوم کے جانب بھاگا .. کیونکہ اسکو جلد سے جلد مائشا سے ملنا تھا تبھی تو اُسنے آج کا سارا کام کینسل کیا تھا۔۔۔ پندرہ منٹ میں وہ بلکل تیار تھا۔۔۔ وہ ایک نظر اپنی تیاری پہ مار کر روم کو لاکد کرتا باہر نکل گیا۔۔۔۔ وہ سیدھا لاؤنج میں آیا تھا۔۔ وہیں اُسکی ملازمہ ساکیرا مل گئی تھی۔۔۔ "سایکرا !!! اُسنے اپنی ملازمہ کو مخاطب کیا " جی صاحب !! وہ سیدھی کھڑی ہوتی سر جھکا کر بولی۔۔" مائشا نے بریک فاسٹ کیا ..؟ نہیں صاحب جی ہم انکو بلانے گئے تھے لیکن صاحب جی اُس وقت مائشا بی بی جی سو رہی تھی۔۔۔۔ " ہممم اوکے تُم جاؤ دو کپ کافی بنا کے مائشا کے روم میں ہی لے کر آ جانا۔۔۔۔ وہ حکم دیتا مائشا کے روم کے جانب چل دیا۔۔۔ وہ مائشا کے روم کے سامنے جا کر رُکا تھا۔۔۔ اور دروازہ نوک کرنے لگا ٹک ٹک ٹک ٹک.... اُسنے نوک کر کے ابھی اپنا ہاتھ نیچے ہی کیا تھا جب دروازہ کھلا تھا۔۔۔۔ کالے سلوار سوٹ میں ملبوس وہ چہرے پر دوپٹہ حجاب کی طرح اوڑھے آنکھیں سرخ لال ہو رہی تھی اُسکی آنکھیں رونے کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی بھی روئی ہو۔۔ وہ۔ اس حالت میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔ " کئی لمحہ وہ اسکو بنا پلکیں جھپکائیں دیکھتا رہا ۔۔۔ پھر خود کو کمپوز کرتے بولا ۔۔" کیا میں اندر آ سکتا ہوں..؟ اجازت طلب نظروں سے پوچھا گیا تھا ۔۔۔ مائشا نے اسکو اندر آنے کا راستہ دیا۔۔۔وہ ایک جانب سے نکلتا ہوا اندر آیا تھا ۔۔۔ پھر روم کا جائزہ لیتے بولا "نیند کیسی آئی آپکو...؟ "آئی مین کہ آپ کو کوئی پروبلم تو نہیں ہوئی ۔۔ وہ روم کے اطراف میں نظریں دوڑاتا بولا تھا۔۔۔۔۔ "الحمدللہ ..!!وہ بس اتنا ہی بولی... 
Zm 
نّے اُسکے جانب دیکھا اور پھر بولا۔۔
"یہ کیا ہوتا ہے۔۔؟؟ جو ابھی اپنے بولا ہے ...
مائشا نے اُسکے طرف ایسے دیکھا جیسے اُسکے دماغی توازن بگڑ گیا ہو ۔۔ 
مطلب چّھ سات فٹ کا لمبا چوڑے شخص کو الحمدللہ کا ہی نہیں پتہ تھا۔۔۔۔۔ 
"ایسے کیا دیکھ رہی ہے آپ..؟
"سچ میں مجھے نہیں پتہ اپنے یہ بولا کیا ہے ۔۔۔؟ مجھے یہ لینگویج نہیں آتی۔۔۔ وہ بے بسی سے اسکو دیکھتے وضاحت دے رہا تھا۔۔۔ 
" ا آپکو الحمدللہ کا مطلب نہیں پتہ..؟ اُسنے تصدیق کی تھی۔۔ " نہیں !!! Zm نے گردن نہ میں ہلائی..." فائن !!! " اسکا مطلب ہوتا ہے کہ " اللّٰہ تیرا شکر ہے.." ہمیں ہر بات میں ہر کام میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔۔۔۔ وہ اس بات سے بےخبر بول رہی تھی کہ اللہ کہ نام سن کر مقابل کی کیا حالت ہو رہی ہوگی۔۔۔ وہ ایسی ہی تھی اللہ کے نام کے آگے اسکو کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا ۔۔۔ ہر چیز سے بے خبر ہوئے وہ بسس اللہ کی بات میں مشغول ہو جایا کرتی تھی اپنا غم اپنے ساتھ ہوئی زیادتی ہر چیز کو ہی تو اس نام کو لے کر بھول جاتی تھی وہ۔۔۔ "بسس !!! وہ آواز آہستہ کرتے چلّایا تھا۔۔کیونکہ یہ نام سننا اب اُسکے بس کی بات نہیں تھی جب برداشت سے باہر ہوا تو وہ چلّ ہی اٹھا۔۔۔ مائشا خاموش ہوتی آنکھیں پھاڑے اسکو دیکھنے لگی۔۔۔ "اور مت لے یہ نام میرے آگے۔۔۔ نہیں سنا جاتا مجھ سے یہ نام اور ۔۔۔ وہ تھوڑا آہستہ سے بڑبڑایا آواز اتنی ہلکی تھی مائشا کے کانوں تک بمشکل ہی پہنچی ہو۔۔۔ مائشا کو حیرت ہوئی اُسکی بات کو سن کر ۔۔۔ پھر غور سے اس سامنے کھڑے شخص کو دیکھا جو ہر لحاظ سے بہت خوبصورت تھا۔۔۔۔ لیکن ان سب کے باوجود بھی مائشا کو اس میں ایک کمی سے لگی تھی ۔۔"کیا تھی وہ کمی..؟ جس کو وہ پہچان نہیں پا رہی تھی۔۔۔ "آپ کیوں نہیں سن سکتے اللہ کے نام کو ..؟ اُس نے پوچھا۔۔ zm نے اس لڑکی کو دیکھا جو اس سے پوچھ رہی تھی کہ "وہ کیوں نہیں سننا چاہتا اس نام کو ۔۔؟ آج تک کسی نے یہ سوال اُس سے نہیں کیا بلکہ کوئی اتنی ہمت اپنے اندر رکھتا ہی نہیں تھا جو zm جیسے شخص سے سوال کر سکے۔۔۔ " میں بسس نہیں سننا چاہتا وہ بولا۔۔ "وجہ ..؟ ایک بار پھر پوچھا گیا ۔۔۔" اچھا ویسے ایک بات بتاؤ سب اس نام کو کیوں لیتے ہے۔۔؟  اُس نے اللہ کا نام لینے سے گریز کیا۔۔۔ نہ جانے وہ اس نام سے گھبراتا کیوں تھا۔۔؟ مائشا ہلکے سے مسکرائی " جیسے اُسکے اس سوال پر اسکو افسوس ہوا ہو " جو شخص اس پاک ذات کے ہاتھوں سے بنا ہو جو اس پاک ذات کے حکم کی وجہ سے ہل رہا ہو " وہ کیسے ایسے سوال کر سکتا ہے ۔؟ مائشا نے سوچا پھر ایک لمبی سانس خیچتی بولی۔۔ کیونکہ وہ نور ہے دلوں کا سکون روح کا تسکین دینے والا، جاننے والا ،دینے والا، رحم کرنے والا، صبر  دینے والا ، اتنا بڑا کہ کوئی اُسکا مقابلہ نہیں کر سکتا وہ بے لوث محبت کرنے والا ہے انسان ایک بات ساتھ چھوڑ سکتا ہے لیکن ' اُس نے زم کے جانب دیکھا پھر بولی " لیکن وہ نہیں چھوڑتا کیونکہ وہ اپنے بندوں سے دنیا کے ہر انسان یہاں تک کہ ماں سے بھی زیادہ محبت کرنے والا ہے۔۔۔۔۔ وہ بول کر رکی تھی۔۔۔۔" اچھا !! "وہ یہ کر سکتا ہے لیکن میں نہیں مانتا ..؟ وہ نفی کرتا بولا" ویسے میں آپکو زیادہ نہیں جانتی نہ میرا آپس ایسا کوئی رشتہ ہے " پھر بھی میں ایک اللہ کی بندی ہوں ﷴﷺ کی اُمتی۔۔ " اس ناطے سے میں آپکو ایک شرط لگا سکتی ہوں ۔۔ وہ یہ سب باتیں اسکو دیکھتے بول رہی تھی آنکھوں میں اتنا غرور تھا کہ ایک لمحے کو تو zm بھی سوچ میں پڑ گیا تھا کہ" اس لڑکی کو اس ذات پر اتنا غرور کیوں ہے.؟" کون سی شرط ..؟ اُس نے اُلجھن سے اُسکے جانب دیکھتے پوچھا۔۔۔ " شرط یہ ہے کہ آپ صرف ایک بار اللّٰہ کا نام لے کر دیکھو " دیکھنا اس ایک نام سے جس کو آپن سننے۔ کے راودار نہیں ہے نہ پھر اس نام کےبغیر آپ سانس لینا بھی گنھا سمجھو گے۔۔ "میں یہ یقین کےساتھ بول رہی ہوں.... آپکو اتنا یقین ہے ۔؟ اُسنے بھنویں اُچکاتے اُس سے پوچھا ۔۔۔ "ہممم.. !!" لیکن مجھے نہیں لگتا.. وہ پھر سے نفی کرنے لگا تھا۔۔۔ وہ کچھ بولتا جب دروازہ نوک ہوا ۔۔۔ اُسنے گیٹ کی جانب دیکھا ۔۔ " جہاں سکيرا ٹرالی لیے کھڑی تھی۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔ وہ اندر آئی اور سامان رکھ۔ کر چلی گئی۔۔۔ " کیا آپ میرے ساتھ کافی پی سکتی ہے..؟ اُس نے پوچھا " نہیں !!! میں کسی کے ساتھ ایسے نہیں کھاتی ۔۔ اُسنے منا کر دیا۔۔ "اچھا بسس آج پھر میں بھی وعدہ کرتا ہوں جس پر آپکو بہت غرور ہے اُسکا نام لوں گا۔۔ وہ کچھ وقفہ سوچنے کے بعد بولا تھا۔۔۔ مائشا نے اسکو دیکھا ہلکا سا مسکرائی" یعنی بلیک میلنگ وہ بڑ بڑائی تھی ۔۔۔ اور ہاں بولتے ہوئے سامنے بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی۔۔۔ zm نے اسکو کافی۔ کامگ تھمایا اور سامنے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا تھا ۔۔ وہ آہستہ آہستہ کافی کے سپ لے رہی تھی۔۔ کچھ یاد آنے پر وہ بولی میں اب جانا چاہتی ہوں۔۔۔ " zm جو اسکو دیکھ زیادہ رہا تھا اور کافی  پی رہا تھا اُسکی بات پر اسکو دھچکا لگا تھا۔۔۔ وہ ٹیبل پر مگ رکھتا ہوا بولا" کیااتنی جلدی ..؟ "ہممم...... اپنے رات بولا تھا کہ میں اب چلوں آپکے ساتھ... صبح بے شک کہیں پر بھی چلی جاؤں اب صبح سے دوپہر بھی ہو گئی ہے میں جانا چاہتی ہوں وہ بول کر خاموش ہو کر سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ رہی تھی۔۔ "لیکن آپ جائیگی کہاں..؟ میں کہیں پر بھی چلی جاؤں گی ہوسٹل وغیرہ بہت ہے۔۔ اُس نے بتایا۔۔۔ آپ اپنے گھر بھی تو واپس جا سکتی ہو وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس لڑکی کو دنیا والے گندی نظروں سے دیکھیں۔۔۔ باہر کا ماحول اچھا نہیں ہے " جب اپنے گھر میں انسان کو اپنی عزت کاخطرہ ہو تو پھر وہ باہر والوں سے کیوں ڈرے۔۔؟ وہ ایک ٹرانس میں بول رہی تھی جو zm کے اوپر سے ہو کر گزری۔۔۔۔ آپ یہاں پر بھی تو رہ سکتی ہے۔۔ اُسنے اسکو روکنے کی سعی کی جہاں آپ ہوسٹل میں رہے گی یہ سمجھ کر یہی پر رہ لیں کہ یہ ہوسٹل ہی ہے۔۔۔۔ جب وہ کچھ نہیں بولی تو اس نے اپنی بات جاری رکھی تھی ۔۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں آپکو یہاں کوئی بھی دکّت نہیں ہو گی۔۔۔۔ " آپ مجھے روکنے پر کیوں بضد ہے۔۔۔؟ اتنی باتوں کو سن کر مائشا نے صرف اتنا پوچھا تھا۔۔۔۔ zm کے تو الفاظ ہی دم توڑ گئے تھے " و وہ میں وہ میں اس لیے بول رہا ہوں کہ ہمارے ملک کے حالات اچھے نہیں ہے اور ایک تنہا لڑکی کے لئے تو بلکل بھی نہیں۔۔۔ جب اسکو کچھ نہ سوجھا تو اُسنے یہ بول دیا " کون کہتا ہے میں تنہا ہو ؟؟ آئی برو تن کر مائشا نے اس سے پوچھا "کیا مطلب؟؟ آپکے ساتھ اور کوئی بھی ہے کیا ؟ وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا " ہاں ہے میرے ساتھ اور وہ اس پوری کائنات کا مالک ...!! وہ مسکرا کر بولی۔۔ zm اُسکا اتنا پختہ یقین دیکھ کر حیران ہو تو تھا۔۔ آپکا اتنا پختہ یقین ہے اُس پر ۔۔۔ وہ خوف کی وجہ سے نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔ دل تھا کہ بے چین سا ہو رہا تھا سکون اسکو بلکل بھی نہیں محسوس ہو رہا تھا ۔ دل اور دماغ پر شعلے بھڑک رہے تھے اُسکے ماتھے پر ننھے ننھے پسینے کی بوندیں چمک رہی تھی اے سی میں بھی پسینے مائشا کو پل نہیں لگا تھا اسکو پہچاننے میں۔۔ اُسکے بابا اکثر کہا کرتے تھے کہ " بیٹا جس کےدل میں اللّٰہ کا ڈر خوف ہو ذرّہ برابر بھی ایمان ہو بھلے ہی وہ لاکھ بُرا ہو لیکن جب اللہ کانام  اس شخص کے سامنے لیا جائے تو اُسکی پہچان ہے کہ اسکو اللّٰہ۔ کے خوف کی وجہ سے اُسکے ماتھے پر پسینہ انے لگتا ہے کیونکہ کہیں نہ کہیں اُس شخص کے اندر ایمان کا نور ہوتا ہے۔۔۔ اسکو چاہے کہ آپ اُسکی مدد کریں اسکو اور اللہ کے قریب کرنے میں " پھر چاہے وہ آپکا رشتے دار ہو آپکی پہچان والا یا کوئی اللہ۔ کا بندہ ۔۔۔ آپکو بنا کسی غرض کے اسکو مکمل اللہ کے طرف لانا ہے ۔۔ وہ کیسے بھول سکتی تھی اللّٰہ شائد اللہ اس کے ذریعے ہی اُسکی آزمائش کو ختم کر دیں اُسکی سزا کو ختم کر دیں اور وہ جینے  کوئی بہانہ مل جائے ۔۔۔" ٹھیک ہے میں یہاں رہنے کو ریڈی ہوں۔۔۔۔ وہ اپنا فیصلہ سنا کر خاموش ہو گئی تھی اور zm وہ تو بہت خوش تھا۔۔۔ "شکریہ !! وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔ "نو نیڈ ..!!  اُسنے مسکرا کر کہا تھا۔۔۔ "آپکو اپنا وعدہ یاد ہوگا جو ابھی کیا تھا ۔ مائشا نے اسکو وعدہ یاد دلایا۔۔ وہ کھل کر مسکرایا تھا۔۔ پھر بولا کیا آپ مجھ سے دوستی کرو گی۔۔ ؟؟ اُس نے دوستی کی پیشکش دے ڈالی۔۔۔۔ میں ویسے تو دوستی نہیں کرتی " لیکن چلے آپ سے کر لیتی ہوں وہ بھی مسکرائی تھی ۔۔ " دونوں ایک دوسرے کو مسکراتی نظروں سے دیکھ رہے تھے ایک دل سے مسکرایا تھا تو دوسرا کسی کو دیکھ کر لیکن غم وہ اپنے اپنے نہیں بھولے تھے ان غموں اُنکی بہت سی یادیں وابستہ تھی پھر "کیسے بھول جاتے وہ دوں اپنے غم؟؟ انسان سب کچھ بھول جاتا ہے لیکن اپنوں کے دیے زخم کبھی نہیں بھول پاتا۔۔ مائشا کا صرف ایک مقصد تھا سامنے کھڑے اس شخص کو اللہ کے جانب لے کر جانا۔۔۔۔ اس شخص نے کچھ نہیں بتایا تھا اسکو لیکن پتہ نہیں کیوں مائشا کو ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ شخص قسمت کا ستایا ہوا ہے " جیسے اس شخص پر قسمت نے بہت بے رحمی سے وار کیا ہے۔۔" لیکن کیا؟؟ اسکو وہ ابھی نہیں جانتی تھی ۔۔۔ آؤ میں آپکو اپنی بی امّاں سے ملواتا ہوں وہ خوشدلی سے مسکراتے ہوئے بولا ۔۔۔ "ہممم ضرور !!"لیکن  پہلے وعدہ پورا کریں۔۔ اُسنے بھی اُسکی ہی انداز میں جواب دیا۔۔ اوکے مائی ڈول وہ ہنستے ہوئے بولا۔۔۔ " پھر بولیے " وہ اکڑتی ہوئی بولی۔۔ اہم آهمم ....!!! اُسکے اس انداز میں وہ ہنسی اور پھر بولی ویسے مجھے نہیں لگ رہا یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔۔ وہ مسکراتی ہوئی بول رہی تھی۔۔ zm نے دل ہی دل میں کہا تھا " مائشا میری جان آپکو بلکل صحیح لگ رہا ہے سچ میں ہی یہ ہماری پہلی ملاقات نہیں ہے ۔۔۔ " بھئی ایسے کیا دیکھ رہے ہیں آپ.. ؟ اب بولیے بھی " پھر میں نے آپکی بی امّاں سے بھی ملنا ہے ۔۔ ہاں ہاں بول رہا ہوں ۔۔۔ اسکو بہت گھبراہٹ ہو رہی تھی۔۔۔ لیکن اس لڑکی کے لئے وہ کچھ بھی کے سکتا تھا کچھ بھی ۔۔ ا ... ا... " ارے آگے بھی بولے۔۔۔ مائشا نے اسکو ہمّت دینی کی کوشش کی آپ کر سکتے ہیں۔۔۔ " ا ل ل ا ه...  اُسکا پورا وجود کانپنے لگا تھا دل تھا کہ بسس دھڑکنا بھول گیا تھا دل میں اس قدر آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اسکو لگ رہا تھا اگر یہ نام اُسنے پھر لیا تو اُسکی عزیز جان چیز اُس سے چھین لی جائے گی" کوشش ... آپ کر سکتے ہیں اُسنے آنکھیں بند کر کے ایک دم بول دیا " اللّٰہ ....!!! نام کے ساتھ ساتھ دل کے بھڑکتے شعلے پ ایک دم فوار سی گری تھی ایک سکون اُسکے وجود میں سرائیت کر گیا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے برسوں کی بھٹکے ہوئے کو اُسکی منزل مل گئی ہو ۔۔۔ آنکھوں سے بے اختیار آنسووں بہنے لگے تھے۔۔۔ و ایک بار پھر نام کو دہراتا نیچے بیٹھتا چلا گیا اور بہت زور سے چلّایا ۔۔۔ " اللّٰہ ہ ہ ہ ہ ...........!!! ایک بار نہیں کئی بار مرتبہ اُس نے اللّٰہ کا نام لیا ۔۔۔ اور خوشی سے مائشا کو خود میں بھیچنے ول ہی تھا جب مائشا بہت رفتار سے اُس سے دو قدم پیچھے ہوئی تھی۔۔۔ اور بولی " صرف دوست اور ڈکشنری میں ایسے فضول کے کوئی بھی حرکت نہیں ہے پہلی اور آخری بار بتا رہی ہوں۔۔۔ اُسکے تاثرات بہت سخت ہو گئے تھے ایک دم۔۔ سوری سوری مجھے خوشی کی وجہ سے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں کیا کر رہا ہوں ۔۔؟ آئندہ کبھی نہیں ہوگا ایسا۔۔۔ وہ شرمندہ دکھ رہا تھا ۔۔ اور پھر گردن جھکاتے بولا ۔۔۔ میں آپکو اپنی دوست ہونے کی حثیت سے اپنا ماضی بتانا چاہتا ہوں میں نہیں چاہتا مستقبل میں میرے ماضی کی وجہ سے آپکو کوئی غلط فہمی ہو۔۔۔ آپ میری واحد دوست ہو جو زندگی میں پہلی اور آخری ہو۔۔ لیکن اس سے پہلے میں آپکو بی امّاں سے ملواتا ہوں۔۔۔ چلے اُسنے پوچھا اپنی بول کر۔۔۔" جی!! مائشا نے گردن ہاں میں ہلا دی پھر وہ دونوں آگے پیچھے ہو کر روم سے باہر بی امّاں کے پاس چلے گئے یہ اُنکے پہلی ملاقات میں ہی دوستی کا آغاز تھا۔۔
********************** 
عالیان کی ایجوکیشن کمپلیٹ ہو گئی تھی ۔۔ لیکن وہ اب انڈیا واپس نہیں جانا چاہتا تھا ۔۔۔ "کیوں جاتا وہ انڈیا واپس ۔؟ جس کے لیے وہ جانا چاہتا تھا اب وہ تو کسی اور کی ہو چکی تھی۔۔ اور اس میں ہمت نہیں تھی اپنی محبّت عشق کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا ۔۔۔ وہ یہیں پر رہ کر بز نس شروع کر چکا تھا۔۔۔۔ "دادا جان ...!! وہ آفس کے لیے تیار ہو کر جب لاؤنج میں آیا تو احسان شاہ کو دیکھتا اُنکے پاس ہی آ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اور انکا ہاتھ تھام کر اُنکے بوسہ لیتے گویا ہوا۔۔۔ " طبیعت کیسی ہے آپکی..؟ "بچہ میں ٹھیک ہوں...!! احسان صاحب نے جواب دیا۔۔۔ "ہممم آئے ناشتہ کرتے ہیں ۔ وہ اُنکا ہاتھ تھامتے بولا اور انکو سہارا دیتے ڈائننگ ٹیبل ٹک لایا .." انکو چیئر پر بیٹھا کر خود بھی اُنکے برابر والی چیئر پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔ وہ دونوں خاموشی سے بریک فاسٹ کر رہے تھے۔۔۔ جب احسان صاحب ( دادا جان) نے اسکو مخاطب کیا۔۔۔ " عالیان بچے کب تک حقیقت سے منہ چھپاؤ گے۔۔۔۔ جبکہ یہ آپ بھی جانتے ہو کہ مائشا گڑیاں کسی اور کی زندگی میں شامل ہو چکی ہے۔ "پھر کیوں حقیقت تسلیم نہیں کرتے آپ۔۔؟ وہ ایک پل کو رکا لیکن چہرا ہونز ناشتے کے جانب ہی تھا۔۔۔ اور کچھ وقفے بعد خود کو کمپوز کرتے بولا۔۔۔ " دادا جان میں حقیقت پسند انسان ہوں "اور میں تسلیم کر چکا ہوں کہ اب مائشا کسی اور کی ہے۔۔۔ وہ ہی جانتا تھا اپنے اندر امڈتے سیلاب کو کیسے روکا ہوا ہے اس نے۔۔۔" پھر وہ والا عالیان کہاں ہے..؟ جو کسی دوسرے کو بھی اُداس دکھی دیکھتا تھا تو اپنی باتوں سے اسکو بھی خوش ہونے پر مجبور کر دیتا تھا۔۔ کہاں ہے ۔۔؟" وہ عالیان جس کے ہر انداز میں رنگ بکھرتے تھے۔۔۔ وہ کیا جواب دیتا۔۔۔ سچ ہی تو بول رہے تھے دادا جان ۔۔۔" دادا جان عمر کے ساتھ انسان کو اُسکی ذمّےداریاں سنجیدہ بنا دیتی ہے۔۔ اوۓ میری ذمّے داری نے بھی مجھے مجبور کر دیا ہے سنجیدہ بننے پر۔۔۔ " لیکن ابھی تو بیٹا کوئی ذمّے داری آپکے سر پر ہے ہی نہیں ہے۔۔۔۔؟ ذمّے داری تب آتی ہے جب شادی ہو جاتی ہے۔۔۔ بال بچے ایک عدد بیوی ماں باپ ہو ایک بھری ہوئی فیملی کی زمے داری سر آتی ہے۔۔۔ یہ عمر جس میں آپ ہو اس میں تو بچّے خوش مزاج ہوتے ہے۔۔۔اور ابھی آپ پر یہ ذمّے داری نہیں آئی۔۔" پھر کون سی ذمّے داری کی بات کر رہے ہو آپ۔۔۔؟ صحیح معنوں میں اب عالیان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔۔ احسان صاحب سب جانتے تھے اسکو۔۔۔ وہ بھلے ہی انکو کچھ نہیں بتاتا تھا لیکن جس طرح مائشا کا نام لینے سے ہی اُسکے چہرے سے محبّت کے رنگ پھوٹ پھوٹ کر بکھرتے تھے۔۔۔ احسان صاحب کو رشک ہوتا اپنے پوتے پر کہ وہ مائشا کا بہت کھیال رکھے گا۔۔۔۔۔ لیکن جب رکسانہ بیگم نے ( دادو) نے انکو فون پر مائشا کے نکاح کی خبر دی تو ایک دن وہ مایوس ہو کر رہ گئے تھے۔۔۔۔ اُنہونے یہ بات عالیان کو نہیں بتائی۔۔۔۔ لیکن جب یہ بات عالیان کو پتہ چلی تو اس دن فون پر وہ بھی مائشا کے منہ سے تو وہ تو سب کچھ ہی بھول گیا تھا۔۔۔ ہنسنا تو جیسے اسکو برسوں ہو ہو گئے تھے۔۔۔ اس واقعہ کو آٹھ مہینے گزر گئے تھے اُس دن کے بعد جیسے عالیان نے مائشا سے بات نہیں کی تھی نہ وہ اپنے اندر ہمّت رکھتا تھا۔۔۔۔۔" دادا جان مجھے لیٹ ہو رہا ہے۔۔۔ شام میں ملاقات ہوتی ہے۔۔ وہ نظریں چراتا ہوا اپنا آفیس بیگ اٹھاتا بولا۔۔۔ اور پلٹ کر جانے ہی لگا تھا۔۔۔ جب دادا جان کی آواز اُسکے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔۔ " میں نے نور کا ہاتھ مانگا ہے آپکے لئے۔۔ اُمّید کرتا ہوں آپ میری بات کی لاج رکھو گے۔۔۔ وہ جھٹکے سے پلٹا اور دادا جان کے چہرے کو بے بسی سے دیکھا۔۔۔ جیسے کہنا چاہتا ہوں کہ "دادا جان یہ کیا بولا رہے ہیں آپ...؟ پر .......!! "کچھ پر ور نہیں۔۔۔؟؟ آج سے ایک ہفتہ بعد ہم دونوں انڈیا واپس جائے گے۔۔۔ میں بہت ٹھیک چکا ہوں۔۔۔۔" اب اور نہیں۔۔!! میں اپنے وطن اپنے گھر اپنوں کے درمیان رہنا چاہتا ہوں مانتا ہوں جو گزر گیا وہ میں نہیں لا سکتا نہیں لا سکتا اپنے دو دو جگر کے ٹکڑوں کو۔۔۔ لیکن اب میں یہ دو دن کی زندگی اللہ میں عطا کی ہے اسکو گوانہ نہیں چاہتا اس دو دن کی زندگی کو اپنوں کے درمیان گذارنا چاہتا ہوں۔۔۔  دادا جان آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے بول رہے تھے ۔۔ جھریاں جده چہرا بہت اُداس اُداس اور دکھی نظر آ رہا تھا۔۔۔ " اُس نے دل کو کڑا کیا اور آنکھوں کو قرب سے بند کرتے بہت مشکل سے بول پایا تھا۔۔۔۔ "جیسا آپکو ٹھیک لگے۔۔۔۔ وہ یہ بولتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔ اور پیچھے احسان صاحب اُسکی پیٹھ کو دیکھیے گویا ہوئے۔۔۔۔ مجھے معاف کرنا میرے دوست پُتر مجھے یہ کرنا ہوگا ۔۔جانتا ہوں محبّت کو بھلانا ممکن نہیں لیکن پیار کا روگ یہ آپکو دیمک کی طرح کھا جائے گا کھوکھلا کر دیگا آپکو۔۔۔ ہمیشہ کے لیے "کبھی روگ نہ لگانا پیار کا" بن جائیگا آپکے لئے۔۔۔ اس لیے میں نہیں ہوتے دیکھ سکتا یہ سب اُنہونے نے اپنی پوروں سے آنسوؤں کو صاف کیے اور ملازم کی مدد سے باہر لان میں چلے گئے۔۔۔ کیونکہ اس وقت احسان صاحب لان میں بیٹھ کر اللہ کہ ذکر کرتے تھے ۔۔۔
***********************
حال»»»
"وہ بس سوچ کر ہی رہ گیا تھا۔۔۔صرفان کی آنکھوں میں بھی آنسوں آ گئے تھے جن کو اُسنے بڑی مہارت سے چھپا لیے تھے۔۔۔ "ارے یہ کیا۔۔۔۔۔۔؟؟ " صرفان چہرے پر مسکراہٹ سجائے اُسکے پاس آیا۔۔۔ اور پھر بولا۔۔" یہ کیا ..؟ دیکھ تیرے ہونٹوں پر کچھ لگا ہے ۔۔ ؟ وہ مسکراہٹ دباتے بولا۔۔۔ منہال نے اُسکے جانب دیکھا ۔۔ "دیکھ تو ذرا... " سچّی بول رہا ہوں تیرے ہونٹوں پر کچھ لگا ہے۔۔۔ منہال جب بھی کچھ نہیں بولا تو وہ اُسکے برابر میں اُسکا ہاتھ پکڑتے گویا ہوا۔۔ دیکھ نہ یار اتنی دُور سے میں صرف تُجھے بتانے یہ آیا ہوں" کہ دیکھ تیرے ہونٹوں پر کچھ لگا ہے۔۔؟ توں کیوں آیا ہے یہاں توں بھی چھوڑ دے مجھے سب کی طرح ماما کی، بابا کی، مدیحہ کی اور تو اور۔۔۔۔۔!!! اُسکے گلے میں آنسوؤں کا فنڈا اٹک گیا تھا۔۔۔۔ اور تو اور میں نے اپنی زندگی کو خود سے جُدا کر دیا ہے۔۔۔ "پتہ نہیں کس حال میں ہوگی میری جان۔۔۔۔!!! وہ سامنے لگے مائشا اور خود میں فوٹو کو دیکھتے بولا ایک آنسووں آنکھ سے نکل کر اُسکی ہاتھ کی پشت پر گرا تھا ۔۔۔ صرفان نے اسکو کھینچ کر اپنے گلے لگایا اور بولا۔۔ میں بھی مانتا ہوں کہ تونے مائشا بھابی کی ساتھ اچھا  سلوک نہیں کیا۔۔۔ لیکن میں جب بھی تیرا ساتھ ہر گز نہیں چھوڑنے والا۔۔۔۔ اور ہاں پھپپوں نے تجھکو نہیں چھوڑا وہ تو اکیلے میں بیٹھ بیٹھ کر روتی ہے تیرے لیے اللہ نے دعا مانگتی ہے۔۔۔راتوں کی نیند تو جیسے اُنہونے اپنے اوپر حرام کر لی ماں ہے نہ " نہیں دیکھ سکتی وہ تمہیں اس حالت میں۔۔۔۔ وہ بول کر خاموش ہوا تھا۔۔۔ اگر انکو مجھ سے اتنی ہی محبّت ہوتی تو آٹھ مہینے سے ماما میرے روم میں نہیں آئی اگر محبّت ہوتی تو وہ ضرور میرے روم میں آتی۔۔۔وہ اپنے آنسوؤں کو بے دردی سے نوچتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔" منہال اب کیوں پچھتاوا ہے تمہیں ؟؟ " مائشا تو تمہارے لیے ایک بد کردار تھی نہ اب ایسا کیا ہو گیا کہ تمہیں ایک دم سے محبّت یاد آ گئی وہ لڑکی یاد آ گئی جو تُم سے بے پناہ محبت کرتی تھی۔۔۔۔ وہ لڑکی جس نے آج تک آج تک کسی غیر محرم کو اپنے سطر تک نہیں دکھایا وہ کیسے اُس وقت وہ تمہارے لیے بد کردار ہو گئی تھی۔۔۔؟؟ کیا وجہ تھی جو یوں تُم نے اسکو اپنی زندگی سے جانے کا فرمان زاری کر دیا۔۔۔ اسکو یوں اپنی زندگی سے نکال کر پھینک دیا جیسے دودھ میں سے مکھّی کو نکال کر پھینک دیتے ہیں۔۔۔۔ اور اس صبر والی کو دیکھو کہ اس نے اففف تک نہیں کی کوئی وجہ نہیں مانگی اور تمھارے حکم کی تعمیل کرتے زندگی سے دُور چلی گئی۔۔۔۔ یا تو اب تم سبکو کو سچ سے آگاہ کرو یا پھر بھول جاؤ اسکو۔۔۔۔" پیر پر کلھاڑی کیسے مارتے ہے۔۔۔؟ تُم سے بہتر ٹریننگ کوئی نہیں دے سکتا۔۔۔ ایک مشورہ دوں " ایک کام کرو تُم ٹریننگ سینٹر کھول لو۔۔۔۔جو اُلّو ہوگے وہ ضرور تمہارے پاس آئے گے ٹرینگ لینے۔۔۔۔ صرفان غصے سے بولا اور منہال خاموشی سے بس اسکو سنتا رہا اور آنسوؤں بہتا رہا۔۔۔۔ یہ رونے دھونے کا ڈراما بند کرو اور باہر نکل کر دنیا کو دیکھو ۔۔۔ مو آن کرو " اب پچھتانے سے تو وہ آنے سے رہی ..." ہر بار غلطی تمہاری ہوتی ہے اس لیے گھروالے تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ پہلے انکل نے اب پھپپوں نے اگر تمہارا یہ حال رہا تو میں بھی جا رہا ہوں۔۔۔وہ کھڑا ہوتا غصے سے بول کر بغیر منہال کو دیکھیے روم سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔ یہ تو  ایک بہانہ تھا ورنہ صرفان سے اپنے دوست جیسے کزن بھائی کا حال نہیں دیکھا جا رہا تھا۔۔۔وہ اسکو اکیلا چھوڑ کر جان بوجھ کر گیا تھا ۔ اس بات سے بے خبر اُسکے یہ الفاظ ایک دوست کو اُس سے دور کرنے کے لیے کافی تھے۔۔۔۔۔ منہال کے کانوں میں صرفان کے بولے گئے الفاظ باز گست کر رہے تھے ۔۔۔  اسکا دم گھٹنے لگا ۔۔۔ تو گاڑی کی چابی اٹھاتے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔ اور گاڑی کو  ہائی سپیڈ پر ڈال دی۔۔۔ آٹھ مہینے سے لے کر آج تک کہ ہر واقعہ فلم کی طرح چلنے لگا تھا ۔۔ ایک دم آنکھوں کے سامنے مائشا کا مسکراتا چہرا لہرایا اور وہ اس میں کھو سا گیا۔۔۔یہ لمحہ وہ تھا جب منہال کی گاڑی کے بریک پھیل ہوئے اور سامنے ایک درخت سے  گاڑی جا کر ٹکڑا گئی۔۔۔۔ گاڑی کے آگے کے حصے میں دھواں آٹھ رہا تھا ۔۔۔ کچھ پلوں بعد وہ گاڑی بم کی طرح بلاسٹ ہوئی تھی آگ کے شعلے بڑھک اٹھے تھے اب ہر جانب آگ ہی آگ تھی۔۔۔۔ لوگوں کی بھیڑ اکھٹی ہوئی۔۔ اور پولیس کو انفورم کیا گیا۔۔۔۔۔" کیا منہال مر گیا تھا؟؟ میڈیا نے طرح طرح کی نیوز بنا کر پیش کی ۔۔ دنیا بھر میں یہ خبر ہوا کی طرح پھیل گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس خبر نے سب کو رونے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔۔" منہال سپر سٹار فلم انڈسٹریز کے کنگ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔۔۔۔ یہ نیوز سب جگہ پھیل چکی تھی ۔۔۔ "اب کیا ہوگا...؟ یہ خبر کتنوں کی زندگی تباہ کرےگی۔۔؟ "کیا سب کو صبر آ جائے گا۔۔۔؟؟ یہ تو اب وقت ہی اپنا معجزہ دکھائے گا۔۔۔
***********************
آٹھ مہینے پہلے »»»
مائشا کو یہاں آئے مہینے سے زیادہ ہو گیا تھا۔۔ اس دوران وہ بہت کمزور اور بیمار رہنے لگی تھی۔۔ صبح کا وقت تھا باہر دھوپ بہت تیز تھی۔۔ ہوا کے نام پر پتے بھی نہیں ہل رہے تھے۔۔۔ وہ بی امّاں کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی بات کر رہی تھی جب عالیہ وہاں آئی۔۔ " گڈ مارننگ لیڈیز !!! وہ مسکراتی ہوئی اُنکے پاس ہی بیٹھ گئی "مارننگ بیٹا !! بی امّاں نے مسکرا کر جواب دیا اور مائشا نے گردن ہلا کر۔۔۔ "کیا باتیں ہو رہی بھئی۔۔؟ اب وہ پوچھ رہی تھی۔۔۔ "اللّٰہ کی باتیں مائشا نے جواب دیا ۔۔۔ بھئی مجھے بھی بتائے اللّٰہ کی باتیں وہ خوش اور پرجوش انداز میں اُن دونوں سے بولی۔۔اُسکا یہ انداز دیکھ کر بی امّاں اور مائشا دونوں ہی کھل کر مسکرائی تھی۔۔۔۔" قربان جاؤں!! میرے اللّٰہ کتنی خوبصورت مسکراہٹ ہے آپکی مائشا..عالیہ چہرے پر ہاتھ رکھ کر ایسے بول رہی تھی جیسے یہ مسکراہٹ پہلی بار دیکھ رہی ہو ۔۔۔۔" ماشاللہ سچ میں آپکی مسکراہٹ بہت پیاری ہے۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں اُسکی نظر اتارتی بولی۔۔۔۔" بی امّاں میں تبھی سوچوں یہ زیادہ ہنستی کیوں نہیں۔۔۔؟ آج پتہ چلا ہے کہ یہ اس لیے نہیں ہنستی کیونکہ انکو خطرہ ہے کہیں میری مسکراہٹ کو نظر ہی نہ لگ جائے ۔۔
"لیکن ارے ارے ان پیاری محترمہ کو کوئی تو سمجھائے ہم ظالم سماج نہیں ہے۔۔۔ 
اُسکا اب ایکٹنگ شو شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔ پھر تینوں ہی ہنس دی۔۔۔۔ بہت اچھی ایکٹنگ کر لیتی ہو مائشا نے ہنستے ہوئے اُس سے کہا تھا۔۔۔۔۔ وہ بسس مسکرا کر ہی رہ گئی تھی۔۔۔۔۔ بی اماں میں شاپنگ پر جا رہی ہوں آپ جے کو بتا دینا وہ کھڑی ہوتی بولی۔۔۔۔اور اپنا ہینڈ بیگ اٹھائے باہر کے جانب بڑھ گئی ۔۔۔۔۔ بی امّاں کچن میں چلی گئی۔۔۔جبکہ مائشا اپنے روم میں آ گئی تھی۔۔۔ اسکو بہت زیادہ چکّر آ رہے تھے۔۔۔ وہ بیڈ پر بیٹھی خود کو سنبھالنے کے کوشش کر رہی تھی۔۔ آنکھوں کے سامنے دشمن جان کا سایا لہرایا اور وہ بےہوش ہوتی پیچھے کے جانب گر گئی۔۔۔۔
***********************
وہ مہینے بھر بعد آج لندن سے واپس لوٹا تھا۔۔ اُس رات سے اگلی صبح ہونے سے پہلے ہی لندن آ گیا تھا ۔۔۔۔ اُسنے جیسے ہی انڈیا میں اپنا قدم رکھا ایک یاد تلخ حقیقت فلم کی طرح سامنے چلنے لگی۔۔وہ انکو ذہن سے جھکتا آگے بڑھا موبائل کو آن کیا تبھی دھڑا دھڑ میسیج کی لائن لگ گئی۔۔۔اُس نے ایک میسیج اوپن کیا جہاں ایک ریسٹورینٹ کا ایڈریس تھا۔۔۔۔ پھر دوسرا اوپن کیا جس میں کسی نے کہا تھا کہ آج رات بارہ بجے اس ریسٹورینٹ میں آ جانا بہت زبردست نیوز ہے ۔۔آپکے لئے۔۔۔ یہ کوئی اناؤن نمبر تھا جس سے یہ میسج آ رہے تھے اسکو۔۔۔ "کون ہے ؟؟ یہ اور کیا نیوز ہو سکتی ہے۔۔؟" کہیں کوئی ٹریپ تو نہیں ؟؟ وہ خود سے اندازے اُکھڑ رہا تھا۔۔۔" مجھے جانا چاہیے۔۔۔ وہ ایک فیصلہ لیتا ہاتھ میں پہنی واچ میں وقت دیکھا سات بج کر پینتالیس منٹ ہو رہے تھے۔۔۔۔ ابھی تو بہت وقت ہے تب تک میں گھر جاتا ہوں وہ پارکنگ اریا میں آگیا جہاں اُسکا ڈرائیور اُسکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔ اب وہ گاڑی میں بیٹھ کر گھر کے لیے روانہ ہو گیا۔۔۔اس بات سے بے خبر گھر جا کر اُسکے لیے سوالوں کی ایک تعداد لگی تھی جو اُسکے منتظر تھے۔۔ جن کے جواب اسکو دینے تھے۔۔۔
***********************
شاہ حویلی»»»
اچھا ہوا میں یہیں تو چاہتی تھی۔۔۔ صائمہ بیگم فون پر شاہزیب سے بات کر رہی تھی۔۔ تُم نے صحیح کیا شاباش بیٹا شاباش ایک تُم ہی تو ہو جو اپنی ماں کی پرواہ کرتے ہو۔۔ ورنہ شہزین ، عالیان دونوں تو بس چاچی چاچی اور مائشا ہی تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔۔ اُنہیں ان کے علاوہ کوئی نظر ہی نہیں آتا۔۔ کچھ لوگ کتنے بے رحم ہوتے ہیں اور ضدی بھی جب تک انکو ٹھوکر لگ کر نیچے نہیں گر جاتے انکو عقل نہیں آتی۔۔۔ ایسی ہی صائمہ ملک شاہ تھی۔۔ اب کیا کرنے کا ارادہ ہے بیٹا تمہارا۔۔۔ صائمہ بیگم نے شاہزیب سے کہا ۔۔اس بات سے بے خبر کوئی اُنکی بات بہت غور سے سُن رہا ہے۔۔۔۔" میں ایک رائے دوں وہ کچھ بولتی ہوئی بولی۔۔۔۔" ہممم دو ماما... شاہزیب نے اجازت دی۔۔۔ ایک کام کرو بیٹا اُس منہوس کو ڈھونڈ کر ختم کر ڈالو میں نہیں چاہتی کہ کمال شاہ کی نسل اس دنیا میں رہے ایک کو تو میں نے اس منہوس کی  پیدائش پر ختم کروا دیا تھا۔۔۔۔ لیکن اسکو نہیں کر پائی تھی۔۔۔ اب یہ کام تُم کرو اور ختم کر ڈالو اسکو۔۔۔ مار ڈالو وہ ابھی کچھ اور بھی بولتی کسی نے انکا کندھا پکڑ کر اپنے جانب کیا اور ایک زور دار تھپڑ اُنکی آگے بولنے والے الفاظوں کو وہیں کا وہیں روک دیا تھا۔۔۔۔۔" انف..... !!! ایک اور الفاظ نہیں۔۔۔ کون تھا وہ شخص جس نے صائمہ بیگم کو تھپڑ مارا تھا۔۔۔۔ ؟
************************
Must read epi....
Vote comments share 👍👍👍
My insta I'd
@m_choudhary.7
Follow this my Instagram account
😅😅😅😅😅😅😅 


   1
0 Comments